وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہوجاؤ، اور اس میں جتنا چاہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ، اور دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو، اور (حطۃ) (١١١) کہتے جاؤ یعنی ہماری معافی ہو ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیک لوگوں کو ہم زیادہ دیں گے
پیچھے ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ نے وعدہ کیا تھا ۔ وہ وعدہ ملک شام پر حملہ کرنے اور فتح کا تھا۔ مگر بنی اسرائیل چونکہ غلام قوم تھی جو بزدل ہوچکی تھی، کہنے لگے کہ وہ جابر قسم کے لوگ ہیں ہم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اگر حملہ اتنا ہی ضروری ہے تو جاؤ تم اور تمہارا خدالڑے ہم تو یہاں بیٹھے ہیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ملک شام کی فتح چالیس سال تک مؤخر کردی تاکہ اس عرصہ میں یہ نسل مر کھپ جائے اور آئندہ جو نسل پیدا ہو وہ بیابانوں اور صحراؤں کی آزاد فضا میں پل بڑھ کر جوان ہو اس میں ہمت اور جرأت پیدا ہو اور وہ جہاد کے قابل ہوجائیں۔ اب جب اس نسل نے ملک شام کو فتح کرلیا تو اللہ نے فرمایا: اس کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا ۔ کسی پر ظلم نہ کرنا۔ لوگوں کی خطائیں معاف کرنا۔ میں بھی تمہیں اور تمہاری خطاؤں کو معاف کر دوں گا۔