فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
(ان کے ساتھ ایسا برتاؤ اس لیے ہوا کہ) انہوں نے (147) میثاق کو توڑا، اور اللہ کی آیتوں کا انکار کیا، اور انبیاء کو ناحق قتل کیا، اور کہا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر مہر لگا دی ہے، اس لیے وہ برائے نام ہی ایمان لاتے ہیں
ایک انسان جب حقیقت پسند نہ ہو بس وہی کرے جو پہلے لوگ کرچکے ہیں اور انہی کی رسم و رواج کو بنیاد بناکر عمل کرلے۔ پھر جب انھیں ہدایت کی کوئی بات سنائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس قدر محفوظ ہیں کہ ہمارے عقائد و نظریات میں کوئی بات نہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اثر انداز ہوسکتی ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی انہی عہد شکنیوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر بد بختی اتنی زیادہ چھا چکی ہے کہ اب کوئی بھی ہدایت کی بات ان پر اثر نہیں رکھتی اور یہ لوگ اس قدر ناقص العقل ہیں کہ اپنی اس بدبختی کو بھی خوبی کے انداز میں پیش کرتے ہیں۔