سورة النسآء - آیت 149

إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

تم چاہے کسی بھلائی کو ظاہر کرو، یا اسے چھپاؤ، یا کسی برائی کو معاف (141) کردو، تو بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑی قدرت والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے توشریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہو۔ لیکن بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔ علانیہ بھلائی سے مراد: نیکی معاف کرنے سے ظاہر ہوتی ہے اگر تم معاف نہیں کرو گے تو نیکی چھپ جائے گی،معاف نہ کرنے کی صورت میں بات دل میں رہ جاتی ہے پھر وہ بدگمانی، بغض اور حسد بن جاتی ہے اور حسد انتقام کے لیے ابھارتا ہے۔ درگزر کرنا: اللہ درگزر کرنے والا ہے اس کے پاس قدرت ہے وہ پکڑ سکتا ہے پھر بھی وہ معاف کرتا ہے وہ چاہے تو ایک لمحہ میں سب ملیا میٹ کردے، اللہ چاہتا ہے کہ انسا ن بھی اپنے اندر معافی کا جذبہ ابھارے اور معاف کردے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بندے کے معاف کردینے سے اللہ اس کی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔ (مسلم: ۲۵۸۸) اس آیت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم کسی کو نہ دیکھیں، اپنے رب کو دیکھیں اپنے معاملات کو دیکھیں کہ ہمارا رب ہمیں کہاں کہاں معاف کر رہا ہے پھر انسان کے اندر بھی معاف کردینے کا جذبہ ابھرتا ہے۔ ہم لاشعوری طور پر اللہ کی نافرمانی کے کام کرتے ہیں اگر اللہ ہمیں پکڑنے لگتا تو روئے زمین پر کوئی انسان نہ ہوتا۔ رسول اللہ نے فرمایا: جو تجھ سے کٹے اس سے ملو، جو تجھے محروم رکھے اسے عطا کر، جو ظلم کرے اسے معاف کرو۔‘‘ (مسند احمد: ۲/ ۹۹، ح: ۵۷۴۳)