وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اور اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی جانب سے نفرت یا بے تعلقی (124) کا خوف ہو، تو کوئی حرج نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کرلیں، اور صلح اچھی چیز ہے، اور بخالت انسانی نفوس میں رچا دی گئی ہے، اور اگر تم اچھا سلوک کرو گے اور اللہ سے ڈرو گے تو بے شک اللہ تمہارے کیے کی خوب خبر رکھتا ہے
شان نزول: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس آیت کا مطلب یہ بیان فرماتی ہیں: ’’مثلاً ایک شخص کے پاس عورت ہو، جس سے وہ کوئی میل جول نہ رکھتا ہو، اور اُسے چھوڑنا چاہے، اور عورت کہے کہ اچھا میں تجھے اپنی باری یا نان و نفقہ معاف کردیتی ہوں(مگر مجھے طلاق نہ دے) یہ آیت اس باب میں اتری۔‘‘ (بخاری: ۴۶۰۱) ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کو اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ انھیں طلاق نہ دے دیں۔ تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ’’مجھے طلاق نہ دیجئے، اپنے پاس ہی رکھیے اور میں اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ نے ایسا ہی کیا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی: ۳۰۴۰) گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خاندانی معاملات کو قائم رکھنے کے لیے طریقہ بتایا ہے کہ دونوں آپس میں حقوق میں کمی بیشی کرکے صلح کرلیں۔ اگر کوئی بیوی اپنی مرضی سے شوہر پر اپنا کوئی حق چھوڑ دے اور صلح کرلے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اسلام انسانی نفس کو کمزوریوں اور غلطیوں پر نہیں رہنے دیتا۔ بلکہ ہر وہ صورت نکالتا ہے جس سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہو۔ کیونکہ انسان نفسیاتی طور پر تنگ دل ہے۔ اللہ نے صلح کا طریقہ بتایا ہے۔ اور فرمایا: ’’اللہ سے ڈرو اور ایک دوسرے سے حسن سلوک کرو۔‘‘ رسول اللہ نے فرمایا:’’مومن مرد ایماندار بیوی سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی کوئی بات بُری ہوگی تو دوسری اچھی بھی ہوگی۔‘‘(مسلم: ۲۶۷۲) بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ: ’’حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا دن حضورصلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کو دیتے تھے۔‘‘ (بخاری: ۵۲۱۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے حضور رات گزارنے میں اپنی تمام بیویوں کو برابر کے درجے پر رکھا کرتے تھے عموماً ہر روز سب بیویوں کے ہاں آتے بیٹھتے، بولتے چالتے مگر ہاتھ نہ بڑھاتے پھر آخر میں جن بیوی صاحبہ کی باری ہوتی ان کے ہاں جاتے اور رات وہیں گزارتے ۔ (ابوداؤد: ۲۱۳۵)