أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَىٰ
کیا آپنے اس شخص کو یکھا جو روکتا ہے
یہ آیات ابوجہل ملعون كے بارے میں نازل ہوئی ہیں كہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم كو بیت اللہ میں نماز پڑھنے سے روكتا تھا۔ پہلے تو اسے بہترین طریقہ سے سمجھایا كہ جنھیں تو روكتا ہے یہی اگر سیدھی راہ پر ہوں، انہی كی باتیں تقویٰ كا حكم دیتی ہوں، پھر اگر تو انھیں ڈانٹ ڈپٹ كرے اور بیت اللہ سے روكے تو تیری بدقسمتی كی انتہا ہے یا نہیں؟ كیا یہ روكنے والا جو خود حق كی راہنمائی سے محروم ہے اتنا بھی نہیں جانتا كہ اللہ اسے دیكھ رہا ہے اس كی باتیں سن رہا ہے۔ ایك دفعہ ابوجہل نے قریشی سرداروں سے كہا، محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم لوگوں كے سامنے اپنا چہرہ خاك آلود كرتا ہے۔ (یعنی نماز كے دوران سجدہ كرتا ہے) لوگوں نے كہا: ’’ہاں‘‘ كہنے لگا لات وعزیٰ كی قسم! اگر میں نے اسے اب اس حال میں دیكھ لیا تو اس كی گردن روند ڈالوں گا اور اس كا چہرہ مٹی پر رگڑوں گا۔ اس كے بعد جب اس نے آپ كو كعبہ میں نماز پڑھتے دیكھا تو اس برے ارادے سے آپ كی طرف بڑھا، پھر اچانك پیچھے ہٹنے لگا، سرداران قریش نے جب اپنے رئیس كو اس حال میں دیكھا تو حیرانی سے پوچھا: ’’ابوالحكم کیا ہوا؟‘‘ وہ گھبرایا ہوا كہنے لگا كہ ’’میرے اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) كے درمیان ایك خوفناك آگ حائل ہوگئی تھی۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں كو بتایا كہ اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس كا ایك ایك عضو اچك لیتے۔ (بخاری: ۴۹۵۸)