لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
(اے مسلمانو !) افضل (120) ہونے کا تعلق نہ تمہاری تمناؤں سے ہے، اور نہ اہل کتاب کی تمناؤں سے، جو کوئی برا کام کرے گا اس کا بدلہ اسے دیا جائے گا، اور وہ اللہ کے علاوہ اپنے لیے نہ کوئی دوست پائے گا اور نہ مددگار
شیطان انسان کو سستی نجات کا عقیدہ دیتا ہے جس میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ جسے پیروں کی سفارش، بہشتی دروازے سے گزرنا وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزاء و سزا ہے۔ (۱) ہر انسان کو اس کے اچھے عمل کا اچھا بدلہ اور بُرے عمل کا بُرا بدلہ ملے گا۔ (۲) جزاء و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ (۳) ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر بھی بدلہ ملے گا حق تلفی نہیں ہوگی۔ (۴) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا خواہ رشتہ دار ہو یا پیر فقیر۔ (۵) شفاعت کے مستحق وہ ہونگے جن کے لیے اللہ اجازت دیں گے، اس کے علاوہ سب راہیں شیطان کی بتلائی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے انسان گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہ من گھڑت سہارے کسی کام نہ آسکیں گے۔