وَأَنتَ حِلٌّ بِهَٰذَا الْبَلَدِ
درانحالیکہ آپ اس شہر میں اقامت پذیر ہیں
اللہ تعالیٰ نے قسم كھائی ہے كہ ایك وقت آنے والا ہے کہ اے نبی تیرے لیے یہاں ایک مرتبہ لڑائی حلال ہونے والی ہے۔ اس وقت اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كے لیے بلد حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جس میں كوئی گناہ اور حرج نہیں ہے اور آپ اس شہر میں فاتحانہ ہو كر اس كی سیّدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے كر آج تك قائم شدہ حرمت كو توڑ دیں گے اور حلال بنا دیں گے گو یہ كام صرف ایك ساعت كے لیے ہی ہوگا۔ ایک صحیح حدیث میں بھی آتا ہے کہ اس بابركت شہر مكہ كو پروردگار عالم نے اول دن سے ہی حرمت والا بنایا ہے، اور قیامت تك یہ حرمت و عزت اس كی باقی رہنے والی ہے۔ اس كا درخت نہ كاٹا جائے، اس كے كانٹے نہ اُكھیڑے جائیں۔ میرے لیے بھی صرف ایك دن كی ایك ساعت كے لیے ہی اسے حلال كیا گیا، آج پھر اس كی حرمت اس كی طرح لوٹ آئی ہے جیسے كل تھی۔ ہر حاضر كو چاہیے كہ غیر حاضر كو پہنچا دے۔ اور ایك روایت میں ہے كہ اگر یہاں جنگ و جدال كے جواز كی دلیل میں كوئی میری لڑائی پیش كرے تو كہہ دینا كہ خدا نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم كو اجازت دی تھی تمہیں نہیں دی۔ (بخاری، ح: ۱۸۳۲۔ ۱۸۳۴)