لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
ان کی بہت سی سرگوشیوں (112) میں کوئی خیر نہیں ہے، سوائے اس آدمی (کی سرگوشی) کے جو کسی صدقہ یا بھلائی یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے، اور جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایسا کرے گا، تو ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے
سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی سے مراد: مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے اور وہ اکثر بُری باتیں ہی سوچتے تھے۔ البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو چھپاکر کرنا بہتر ہوتے ہیں۔ مثلاً صدقہ و خیرات، معروف(جس میں ہر قسم کی نیکی شامل ہو) اور لوگوں کی بھلائی کے کام خصوصاً لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے متعلق اگر خفیہ مشورہ ہی کیا جائے تو یہ نیکی کا کام ہے۔ اور جو شخص مذکورہ بالا کاموں کا اللہ کی رضا کے لیے مشورہ کرے تو یہ بڑے نیکی کے کام ہیں۔ کیونکہ اگر اخلاص یعنی رضائے الٰہی کا مقصد نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل نہ صرف ضائع ہوجائے گا، بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ احادیث کی روشنی میں: ارشاد نبوی ہے: ’’اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی اُحد پہاڑ جتنا ہوجائے گا۔‘‘ (مسلم: ۱۰۱۴) نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی طرح رشتے داروں، دوستوں اور باہم دیگر ناراض لوگوں کے درمیان صلح کرادینا بہت بڑا عمل ہے۔ حدیث میں اسے نفلی روزوں، نفلی نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتایا گیا ہے ۔ حتیٰ کہ صلح کرانے ولے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تاکہ ایک دوسرے کو قریب لانے کے لیے مصلحت آمیز جھوٹ کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامّل نہ کرے، ارشاد ہے: ’’وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا، جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے اچھی بات پھیلاتا یا اچھی بات کرتا ہے۔‘‘ (بخاری: ۲۶۹۲، مسلم: ۲۶۰۵)