ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ
پھر اس میں نہ وہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا
یعنی نہ اسے موت آئے گی نہ عذاب سے چھٹے گا اور جو زندگی ہوگی وہ عذاب كی وجہ سے موت سے بدتر ہوگی۔ ایسی زندگی پر وہ خود بھی موت كو ترجیح دیں گے مگر موت نام كی وہاں كوئی چیز نہ ہوگی۔ مسند احمد میں مروی ہے كہ ’’جو اصلی جہنمی ہیں انہیں نہ تو موت آئے گی نہ كار آمد زندگی ملے گی۔ ہاں جن كے ساتھ خدا كا ارادہ رحمت كا ہے وہ آگ میں گرتے ہی جل كر مر جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ انبیاء وغیرہ كی سفارش سے ان كو گروہوں كی شكل ميں نكالے گا۔ ان كو جنت كی نہر میں ڈالا جائے گا۔ جنتی ان پر پانی ڈالیں گے۔ جس سے وہ اس طرح جی اُٹھیں گے جیسے دانہ نالی كے كنارے كوڑے پر اُگ آتا ہے كہ پہلے سبز ہوتا ہے، پھر زرد پھر ہرا۔ لوگ كہنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو اس طرح بیان فرماتے ہیں جیسے آپ جنگل سے واقف ہوں۔ (احمد: ۵/۳۔۱۱، مسلم، : ۱۸۵)