أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں بھی ہوگے موت تمہیں پا لے گی (85) چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہو گے، اور اگر انہیں کوئی بھلائیں پہنچتی ہے، تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری وجہ سے ہے، آپ کہہ دیجئے کہ سب اللہ کے پاس سے ہے، پس انہیں کیا ہوگیا ہے کہ بات سمجھتے ہی نہیں ہیں
اس آیت میں کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے کہا جارہا ہے کہ یہ دنیا تو فانی ہے اور اس کا فائدہ عارضی ہے۔ جس کے لیے تم کچھ مہلت طلب کررہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر ہے اور اطاعت الٰہی کے صلے میں تم اس کے حق دار ہوگے۔ دوسرے یہ کہ جہاد کرویا نہ کرو موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہوکر بیٹھ جاؤ۔ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ﴾ (الرحمٰن: ۲۶) ’’ہر ایک جو اس زمین پر ہے، فنا ہونے والا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ﴾ (آل عمران: ۱۸۵) ’’ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر کسی بھی اسلحہ کا نشان موجود نہ ہو، اور کوئی حصہ جسم زخموں سے خالی نہیں، میں نے اتنی جنگیں لڑیں، مگر موت نہیں آئی اور آج میں بستر مرگ پر اپنی موت آپ مر رہا ہوں۔ (ابن کثیر: ۱/ ۴۱۹) نبی صلی اللہ علیہ وسلم موت کی تیاری کی وصیت فرماتے تھے چنانچہ فرمایا: ’’ اِنَّ اللّٰہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَمْ یُغَرْ غِرْ‘‘ بیشک اللہ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک موت کی کیفیت طاری نہ ہو۔‘‘ (۳۵۳۷) منافقین مصیبت کو رسول اللہ کی طرف منسوب کرتے: یہاں پھر منافقین کا ذکر ہورہا ہے۔ جو کہتے تھے کہ بھلائی یعنی سکھ، آرام، خوشحالی، غلے کی پیداوار مال و اولاد کی فراوانی وغیرہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور برائی یعنی قحط سالی، مال و دولت کی کمی وغیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کی وجہ سے یہ مصیبت آئی ہے۔ مگر حقیقت میں فائدہ ہو یا نقصان سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے اور مسلمانوں کے عقیدہ کا اہم جزو ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الصٰفٰت: ۹۶) ’’اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور ان اعمال کو بھی جو تم کرتے ہو۔‘‘ یعنی اگر فائدہ اور یا نقصان کو اعمال کا نتیجہ ہی قراردیا جائے تب بھی چونکہ تمہارے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا نفع و نقصان بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوا۔ لیکن یہ لوگ کم عقل اور کثرت جہالت و ظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔