سورة الإنسان - آیت 1

هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت گذرا (١) ہے جب وہ کوئی ایسی چیز نہیں تھا جس کا کہیں ذکر ہو

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ كے دن فجر كی نماز میں الم تنزیل السجدہ اور سورئہ الدہر پڑھا كرتے تھے۔ (مسلم: ۸۷۹، بخاری: ۸۹۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دہر كو برا بھلا نہ كہہ كیوں كہ اللہ تعالیٰ ہی دہر ہے۔ (بخاری: ۱۲۱۱) اور دہریہ وہ شخص ہے جو كائنات كی تخلیق كا قائل نہیں بلكہ اسے ابدالاباد سے شمار كرتا ہے اور سمجھتا ہے كہ اس كائنات كا كوئی صانع نہیں۔ بس یہ آپ سے آپ اتفاقات كے نتیجہ میں وجود میں آگئی ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا جا رہا ہے كہ انسان پر ایسا وقت بھی گزر چكا ہے جب كہ بنی نوع انسان كی ابھی تخلیق ہی نہ ہوئی تھی اور اس كا نام ونشان صفحہ ہستی پر موجود نہ تھا۔ اس میں گویا انسان كو متنبہ كیا گیا ہے كہ اسے مرد اور عورت كے حقیر پانی سے پیدا كیا، پھر وہ ایك پیكر حسن وجمال كی صورت میں رحم مادر سے باہر آتا ہے تو رب كے سامنے اكڑتا اور اتراتا ہے۔ اسے اپنی حیثیت یاد ركھنی چاہیے كہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا تو كون مجھے جانتا تھا۔