أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ
کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جسے (رحم مادر میں ) ٹپکایا جاتا ہے
یہاں منكرین قیامت كا رد مقصود ہے۔ اس لیے دلیل كے طور پر كہا جاتا ہے كہ انسان دراصل ایك نطفہ كی صورت میں بے جان اور بے بنیاد تھا۔ پانی كا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا۔ پھر خون كی پھٹكی بنی، پھر گوشت كا لوتھڑا ہوا، پھر خدائے تعالیٰ نے شكل وصورت دے كر اس میں روح پھونكی اور سالم اعضاء والا انسان بنا كر مرد اور عورت كی صورت میں پیدا كیا، كیا وہ خدا جس نے نطفۂ ضعیف كو ایسا صحیح القامت انسان بنا دیا ہے اس بات پر قادر نہیں كہ اسے فنا كر كے دوبارہ پیدا كر دے۔ یقیناً پہلی مرتبہ كا پیدا كرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے۔ تفسیر ابن جریر رحمہ اللہ میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ آیت تلاوت فرماتے تو بعد میں سبحانك اللہم بلٰی فرماتے۔ (ابو داؤد: ۸۸۴)