سورة النسآء - آیت 66

وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر ہم ان پر فرض (75) کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو، یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے تھوڑی تعداد کے علاوہ اس حکم کی تعمیل نہ کرتے، اور اگر وہ لوگ وہی کرتے جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے، تو ان کے لیے زیادہ بہتر، اور انہیں دین پر ثابت قدم رکھنے کے لیے زیادہ موثر ہوتا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت میں انہی نافرمانوں کے رویے کی طرف اشارہ کرکے کہا جارہا ہے جو رسول اللہ کا فیصلہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں کہ اگر ہم کسی بنا پر ان پر قتل واجب کردیتے جیسا کہ بچھڑا پوجنے والوں پر واجب کیا تھا، یا اپنے گھروں سے نکل جانے یا ہجرت کرنے کو کہتے تو اس قسم کی قربانیوں پر یہ کیسے عمل کرسکتے تھے۔ اگر یہ اللہ اور رسول اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے، تو اللہ تعالیٰ تو بہت شفیق اور مہربان ہے۔ اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لیے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جس کی انھیں نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہوتا کیونکہ اطاعت سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ اور نافرمانی سے کم۔ نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا ہے، اور بدی سے بدی پیدا ہوتی ہے۔ غرض ایمان اور عمل صالح سے راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔ اسلام انسان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت میں اپنے آپ کو مٹا دے، اور انسان اپنے نفس کے پیچھے لگ کر صراط مستقیم گم کردیتا ہے، اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔