أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا
یا اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو جو دیا ہے، اس پر حسد (61) کرتے ہیں، ہم نے تو آل ابراہیم کو بھی کتاب و حکمت دی تھی، اور انہیں ایک بڑی سلطنت بھی دی تھی
دوسرے لوگوں پر حسد: دوسرے لوگوں سے مراد مسلمان ہیں جنھیں دن بدن عروج حاصل ہورہا ہے ۔ اور یہود دن بدن ذلیل سے ذلیل تر ہورہے ہیں۔ ان کو اس پر بہت زیادہ تکلیف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فضل سے نوازا ہے نبی بنایا ہے، کتاب عطا کی جس سے جہالت دور ہوگئی، علم کا نور پھیلایا۔ یہود کو تکلیف ہوئی کہ اب یہی عرب قوم جس کو یہ جاہل قوم کہتے تھے، ثقافت اور تجارت میں ان سے افضل ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں پر تو حضرت ابراہیم کے زمانے سے ہی فضل ہوتا رہا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم سے لیکر رسول اللہ تک سب پیغمبر اور کتاب اللہ کا علم و حکمت انہی انبیاء کے پاس رہا اور حضرت یوسف، حضرت داؤد اور حضرت سلمان سب بادشاہ بھی تھے اور نبی بھی۔ اور تمام اقوام عالم پر ہمیشہ آل ابراہیم کا قائدانہ اقتدار رہا۔ اگرچہ آپ صلی اللہ کے زمانہ میں یہ اقتدار یہود سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہوگیا ۔ تاہم آل ابراہیم میں ہی رہا یعنی آل اسحاق سے آل اسماعیل میں آگیا۔ اور جیسی عزت وحکومت بنی اسرائیل کو عطا کی گئی تھی اور ویسی ہی شان و شوکت، عزت و حکومت ان سے چھین کر مسلمانوں کو عطا کی جائے گی۔ لہٰذا اس پر اب تم حسد نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے۔