سورة المعارج - آیت 3

مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ بلند درجات والے اللہ کی جانب سے ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

معارج سے مراد: ذی المعارج كے معنی ابن عباس رضی اللہ عنہما كی تفسیر كے مطابق درجوں والا یعنی بلندیوں اور بزرگیوں والا ہے اور حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں معارج سے مراد آسمان كی سیڑھیاں ہیں۔ (تفسیر طبری: ۲۳/ ۶۰۰) قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہیں فضل وكرم اور رحمت وكرم والا۔ یعنی یہ عذاب اس اللہ كی طرف سے ہے، جو ان صفتوں والا ہے اور جس كی طرف فرشتے چڑھتے ہیں۔ (ابن کثیر) روح سے مراد: جبرئیل علیہ السلام ہیں ان كی عظمت وشان كے پیش نظر ان كا الگ خصوصی ذكر كیا گیا ہے۔ ورنہ فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں یا روح سے مراد انسانی روحیں ہیں جو مرنے كے بعد آسمان پر لے جائی جاتی ہیں جیسا كہ روایات میں ہے۔ ایك دن كی مقدار: اس یوم كے تعین میں بہت اختلاف ہے۔ امام ابن كثیر نے چار اقوال نقل فرمائے ہیں۔ پہلا قول یہ ہے كہ اس سے مراد وہ مسافت ہے جو عرش عظیم سے اسفل سافلین (زمین كے ساتویں طبقے) تك ہے۔ یہ مسافت پچاس ہزار سال میں طے ہونے والی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے كہ یہ دنیا كی كل مدت ہے۔ ابتدائے آفرینش سے قیامت تك، اس میں كتنی مدت گزر گئی اور كتنی باقی ہے۔ اسے صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے كہ یہ دنیا وآخرت كے درمیان كا فاصلہ ہے۔ چوتھا قول یہ ہے كہ یہ قیامت كے دن كی مقدار ہے۔ یعنی كافروں پر یہ یوم پچاس ہزار سال كی طرح بھاری ہو گا لیكن مومنوں كے لیے دنیا میں ایك فرض نماز پڑھنے سے بھی مختصر ہوگا۔ (مسند احمد: ۳/ ۷۵) امام ابن كثیر رحمہ اللہ نے اسی قول كو ترجیح دی ہے كیونكہ احادیث سے بھی اس كی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایك حدیث میں زكوٰة نہ ادا كرنے والے كو قیامت والے دن جو عذاب دیا جائے گا۔ اس كی تفصیل بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہاں تك كہ اللہ اپنے بندوں كے درمیان فیصلہ فرمائے گا ایسے ’’دن‘‘ میں جس كی مدت تمہاری گنتی كے مطابق پچاس ہزار سال ہوگی۔‘‘(مسلم: ۹۸۷)