لْحَاقَّةُ
وہ برحق دن (١)
انداز كلام كو اس قدر موكد اس لیے بنایا گیا ہے كہ قرآن كے مخاطب قریشی لوگ قیامت كے كٹر منكر تھے اور اس میں یہ بتایا گیا ہے كہ آپ بھی بس اتنا ہی جان سكتے ہیں كہ قیامت یقینا آنے والی ہے۔ یہ نہیں جان سكتے كہ كب آئے گی یا اس وقت كیا كیفیت ہوگی۔ چنانچہ اسی سورت میں قیامت كی بعض كیفیات بیان كر دی گئی ہیں۔ الحاقة: قیامت كا ایك نام ہے۔ قارعِة: یعنی ایك چیز كو دوسری پر اس طرح مارنا كہ اس سے آواز پیدا ہو۔ نیز قَارِعَةٌ قیامت كا ایك صفاتی نام ہے۔ یعنی اس دن كائنات كی چیزیں ایك دوسرے سے ٹکرا ٹکرا كر كئی طرح كی آوازیں پیدا كریں گے۔ سچ مچ ہونے والی ہے: یعنی قیامت یا آخرت كا معاملہ اتنا ہی نہیں كہ كوئی مانتا ہے تو مان لے نہیں مانتا تو نہ مانے۔ قیامت آئے گی تو پتا چل جائے گا۔ دوسرا مطلب یہ كہ كس ذریعے سے تجھے اس كی پوری حقیقت سے آگاہی ہو۔ مطلب اس كے علم كی نفی ہے گویا كہ تجھے اس كا علم نہیں۔ كیونكہ تو نے ابھی اسے دیكھا ہے اور نہ اس كی ہولناكیوں كا مشاہدہ كیا ہے گویا كہ وہ مخلوقات كے دائرہ علم سے باہر ہے۔ (فتح القدیر)