وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تم کو میاں بیوی کے درمیان اختلاف سے ڈر ہو (کہ معاملہ اور خراب نہ ہوجائے) تو ایک فیصلہ کرنے والا مرد کے رشتہ داروں میں سے، اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے بھیجو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہتے ہوں گے تو اللہ ان کے درمیان اتفاق پیدا کردے گا، بے شک اللہ بڑا علم والا اور پوری خبر رکھنے والا ہے
اس آیت میں ہدایت فرمائی گئی ہے جہاں میاں بیوی میں نا موافقت ہوجائے تو طلاق سے پہلے فریقین اپنے اپنے خاندان سے ثالث مقرر کریں جو نیک نیتی سے حالات کو سمجھتے ہوئے اصلاح کی کوشش کریں۔ یہ ایک مرد بھی ہوسکتا ہے اور دو افرادجن پر فریقین کو اعتماد ہو۔ اگر ان کی نیت بخیر ہوگی تو اللہ تعالیٰ زوجین میں ضرور موافقت کی راہ نکالے گا۔ اور اگر فریقین اس نتیجہ پر پہنچیں کہ علیحدگی کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں تو پھر وہ فیصلہ کا اختیار نہیں رکھتے۔ مقدمہ عدالت میں جائے گا۔ عدالت یہ اختیار خود بھی استعمال کرسکتی ہے اور ثالثی بنچ کو بھی دے سکتی ہے اصلاح کا معاملہ ہو تو زوجین کو ملادو اور اگر معاملہ خراب ہو تو انھیں جدا کردو۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین خود تو عدالتی اختیارات نہیں رکھتے البتہ اگر عدالت ان کو مقرر کرتے وقت عدالتی اختیارات دے دے تو پھر ان کا فیصلہ عدالتی فیصلہ کی طرح نافذ ہوگا۔