وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (وہ مال) ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو مہاجرین و انصار کے بعد دائرہ اسلام میں داخل (٨) ہوئے، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں معاف کر دے، اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی معاف کر دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ پیدا کر۔ اے ہمارے رب ! تو بے شک بڑی شفقت والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
مستحقین كی تیسری قسم: مال فئے كے مستحقین كی یہ تیسری قسم ہے۔ یعنی صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كے بعد آنے والے اور صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كے نقش قدم پر چلنے والے۔ اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تك آنے والے اہل ایمان و تقویٰ آگئے۔ لیكن شرط یہی ہے كہ وہ انصار ومہاجرین كو مومن ماننے والے اور ان كے حق میں دعائے مغفرت كرنے والے ہوں نہ كہ ان كے ایمان میں شك كرنے والے، گالیاں دینے والے اور اپنے دلوں میں بغض وعناد ركھنے والے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں كہ ان لوگوں كو دیكھو كس طرح قرآن كے خلاف كرتے ہیں، قرآن حكم دیتا ہے كہ مہاجر و انصار كے لیے دعائیں كریں اور یہ گالیاں دیتے ہیں پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (ابن ابی حاتم) صحابہ كرام رضی اللہ عنہم سے دشمنی ركھنے والوں كو تنبیہ: اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے كہ جو لوگ صحابہ كرام رضی اللہ عنہم سے خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار۔ بغض عداوت كینہ یا بیر ركھے اسے سب سے پہلے اپنے ایمان كی سلامتی كی دعا كرنی چاہیے پھر یہ دعا كرنا چاہیے كہ یا اللہ ہمارا یہ گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں كو معاف فرما جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت لے چكے ہیں اور اگر ہمارے دلوں میں ان كے لیے كوئی كینہ رہ گیا ہے تو اسے بھی نكال دے۔ سچا مسلمان وہی ہو سكتا ہے جو صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كی اس پاكباز جماعت سے محبت ركھے اور انھیں اپنا قائد تسلیم كرے اور امام مالك نے اسی آیت سے استدال كرتے ہوئے فرمایا كہ جو شخص صحابہ سے بغض ركھے اور ان كی بدگوئی كرے مال فے میں اس كے لیے كچھ حصہ نہیں۔