فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِن قَبْلِ أَن يَتَمَاسَّا ۖ فَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ۚ ذَٰلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور جو شخص غلام نہ پائے وہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے قبل اس کے کہ دونوں ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں، اور جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو، وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے، یہ حکم اس لئے ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، یہ اللہ کی حدیں ہیں، اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے
ظہار كے احكام: حضرت سلمہ بن صخر انصاری رضی اللہ عنہا كا واقعہ خود ان كی زبانی یہ ہے كہ مجھے جماع كی طاقت اوروں سے زیادہ تھی۔ رمضان میں اس خوف سے كہ كہیں ایسا نہ ہو كہ دن میں روزے كے وقت میں بچ نہ سكوں میں نے رمضان بھر كے لیے اپنی بیوی سے ظہار كرلیا۔ ایك رات جب كہ وہ میری خدمت میں مصروف تھی بدن كے كسی حصے پر سے كپڑا ہٹ گیا پھر تاب كہاں تھی؟ اس سے بات چیت كر بیٹھا۔ صبح اپنی قوم كے پاس آكر میں نے كہا كہ رات ایسا واقعہ ہوگیا تم مجھے لے كر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس چلو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو كہ اس گناہ كا بدلہ كیا ہے؟ سب نے انكار كیا اور كہا كہ ہم تیرے ساتھ نہیں جائیں گے۔ ایسا نہ ہو كہ قرآن كریم میں اس كی بابت كوئی بات اتر آئے یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم كوئی ایسی بات فرما دیں كہ ہمیشہ كے لیے، ہم پر عار باقی رہ جائے، تو جانے اور تیرا كام، تو نے ایسا كیا كیوں؟ ہم تیرے ساتھی نہیں، میں نے كہا اچھا پھر میں اكیلا جاتا ہوں، چنانچہ میں گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام واقعہ بیان كیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایسا كیوں کیا، میں نے پھر یہی عرض كیا كہ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے یہ خطا ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ بھی یہی فرمایا، میں نے پھر اقرار كیا اور كہا كہ حضور میں موجود ہوں جو سزا میرے لیے تجویز كی جائے میں اسے صبر سے برداشت كروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حكم دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور ایک غلام آزاد کرو۔ میں نے اپنی گردن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ حضور! میں تو صرف اس کا مالك ہوں، اللہ كی قسم مجھے غلام آزاد كرنے كی طاقت نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دو مہینے كے پے در پے روزے ركھو، میں نے كہا یا رسول اللہ! روزوں ہی كی وجہ سے تو یہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جاؤ صدقہ كرو، میں نے كہا اس اللہ كی قسم! جس نے آپ كو حق كے ساتھ بھیجا ہے۔ میرے پاس كچھ نہیں بلكہ آج شب سب گھر والوں نے فاقہ كیا ہے پھر فرمایا: اچھا بنو زریق کے عامل صدقہ کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ وہ صدقہ کا مال تمھیں دے دے تم اس میں سے ایك وسق كھجور تو ساٹھ مسكینوں كو دے دو۔ اور باقی تم اپنے اور اپنے بال بچوں كے كام میں لاؤ، میں خوش خوش واپس لوٹا۔ اور اپنی قوم كے پاس گیا اور ان سے كہا تمہارے پاس تو میں نے تنگی اور برائی پائی اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم كے پاس میں نے كشادگی اور بركت پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا حكم ہے كہ اپنے صدقے تم مجھے دے دو۔ چنانچہ انھوں نے مجھے دے دئیے۔ (مسند احمد: ۶/ ۴۱۰، ابو داؤد: ۲۲۱۴) ظہار كی آیات كن كن چیزوں پر ثبوت فراہم كرتی ہیں: یعنی اللہ كی حدود اور ضابطے یہ ہیں كہ ظہار سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ كہ ظہار كرنا كوئی ایسی معمولی بات نہیں جس پر كچھ بھی مواخذہ نہ ہو بلكہ فی الواقع یہ ایك گناہ كا كام ہے۔ تیسرا یہ كہ اس گناہ كا ازالہ صرف كفارہ ادا كرنے سے ہو سكتا ہے اور انكار سے مراد یہ ہے كہ كوئی شخص كفارہ ادا كیے بغیر اپنی بیوی سے صحبت شروع كر دے یا اللہ تعالیٰ كی اس وضاحت كے باوجود اپنی بیوی سے صحبت كرنا حرام ہی سمجھتا رہے۔ دردناك عذاب: مطلب یہ كہ تمہیں نصیحت كی جاتی ہے یعنی دھمكایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مصلحتوں سے خبردار ہے اور تمہارے احوال كا عالم ہے۔ ہم نے یہ احكام اس لیے مقررہ كیے ہیں كہ تمہارا كامل ایمان اللہ اور اس كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو جائے۔ یہ اللہ كی مقرر كردہ حدیں ہیں اس كے محرمات ہیں خبردار اس حرمت كو نہ توڑنا، جو كافر ہوں: یعنی ایمان نہ لائیں۔ حكم برداری نہ كریں۔ شریعت كے احكام كی بے عزتی كریں، ان سے بے پرواہی برتیں۔ ان كے لیے دنیا اور آخرت میں دردناك عذاب ہے۔