لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
(یہ بات تمہیں اس لئے بتا دی گئی) تاکہ جو چیز تمہیں نہیں ملی، اس کا افسوس نہ کرو، اور جو نعمت اس نے تمہیں عطا کی ہے اس پر خوشی نہ مناؤ، اور اللہ ہر اس آدمی کو پسند نہیں کرتا ہے جو اترانے والا اور فخر کرنے والا ہوتا ہے
مسئلہ تقدیر کی مصلحت: پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں یہ خبر اس لیے دی کہ تم یقین رکھو کہ تمہیں جو پہنچا وہ کسی صورت ہرگز ٹلنے والا نہ تھا پس مصیبت کے وقت ضبط وصبر، شکر، ثابت قدمی، مضبوط دلی اور روحانی طاقت تم میں موجود رہے۔ اور اگر نقصان ہو جائے تو اس کا غم نہ کرنا چاہیے۔ اور جب کوئی بھلائی پہنچے تب بھی تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ تمہار حسن تدبیر یا تمہارے فعل کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ نے اسے تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے۔ لہٰذا تمہیں اس پر اترانے، پھولنے اور شیخیاں بگھارنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے جی میں اپنے تئیں بڑا سمجھنے والے، دوسروں پر فخر کرنے والے خدا کے دشمن ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ رنج وراحت، خوشی وغم تو ہر شخص پر آتا ہے، خوشی کو شکر میں اور غم کو صبر میں گزار دو۔(تفسیر طبری: ۲۳/ ۱۹۸)