وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان (١٨) رکھتے ہیں، وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق و شہید اور ان کے لیے ان کے رب کے پاس اجر اور روشنی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور، ان آیتوں کو جھٹلاتے ہیں، وہی جہنمی ہیں
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والے ہی صدیق وشہید ہیں ان دونوں اوصاف کے مستحق لوگ صرف ایمان والے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: ’’آدمی ہمیشہ سچ بولتا ہے، اور سچ ہی کی تلاش اور کوشش میں رہتا ہے حتیٰ کہ اللہ کے ہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (مسلم: ۲۶۰۶) ایک اور حدیث میں صدیقین کا وہ مقام بیان کیا گیا ہے، جو جنت میں انھیں حاصل ہوگا۔ چنانچہ فرمایا: ’’جنتی اپنے سے اوپر کے بالا خانے والوں کو اس طرح دیکھیں گے جیسے چمکتے ہوئے مشرقی یا مغربی ستارے کو تم آسمان کے کنارے پر دیکھتے ہو۔ یعنی ان کے درمیان درجات کا اتنا فرق ہوگا، صحابہ نے پوچھا یہ تو انبیاء کے درجات ہوں گے جن کو دوسرے حاصل نہیں کر سکیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ پر ایمان لائے اور پیغمبروں کی تصدیق کی۔‘‘ (بخاری: ۳۲۵۶، مسلم: ۲۸۳۱) یعنی ایمان وتصدیق کا حق ادا کیا۔ (فتح القدیر) نور سے مراد اعمال صالحہ کی روشنی ہے جس کی تشریح اسی سورہ کی آیت نمبر ۱۲ کے تحت کر دی گئی ہے۔