يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
جس دن آپ مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھیں گے کہ ان کانور (١٢) ان کے آگے، اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، ( اور ان سے فرشتے کہیں گے) آج تمہیں ایسی جنتوں کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہریں ہیں، تم ان جنتوں میں ہمیشہ رہو گے، یہی در حقیقت عظیم کامیابی ہے
نور ایمانی کا انحصار اعمال کی کمی بیشی پر: یہ معاملہ اس وقت پیش آئے گا جب میدان محشر میں فیصلہ کے بعد مومن مردوں اور عورتوں کو جنت کا پروانہ راہ داری مل جائے گا پھر یہ بھی معلوم ہے کہ جنت کو جو راستہ جاتا ہے وہ جہنم سے ہو کر جاتا ہے اور ہر جنتی کو لازماً جہنم پر وارد ہونا ہوگا۔ جیسا کہ سورئہ مریم میں فرمایا: ﴿وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا﴾ ’’تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے، تیرے پروردگار کے ذمے قطعی، فیصل شدہ امر ہے۔‘‘ اور اس راستہ میں سخت تاریکی ہوگی، وہاں مومنوں کے اعمال صالحہ کا نور ہی کام آئے گا، جس کسی کا ایمان پختہ ہوگا۔ اور نیک اعمال زیادہ ہوں گے اتنا ہی اس کا نور یا روشنی بھی زیادہ ہوگی، بعض روایات میں ہے، کچھ مومنوں کی روشنی اتنی دور تک پہنچے گی جیسے مدینہ اور عدن کا درمیانی فاصلہ ہے۔ بعض کا نور مدینہ سے صفاء تک کے فاصلہ تک پہنچ رہا ہوگا اور بعض ایسے بھی ہوں گے، جن کی روشنی ان کے اپنے قدموں سے آگے نہیں بڑھے گی۔ دائیں جانب نور: نیک اعمال اور دائیں جانب کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اہل جنت کو اعمال نامہ بھی دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اور اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک شخص اندھیرے میں روشنی کا کوئی آلہ مثلاً لالٹین، لیمپ یا ٹارچ عموماً اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر چلتا ہے، اس کی روشنی سامنے اور دائیں ہاتھ تو خوب پڑتی ہے مگر بائیں ہاتھ یا پیچھے بھی روشنی پڑتی تو ہے مگر بہت کم، یہی صورت حال اس دن ہوگی اور آگے جو روشنی پڑے گی اس کا تعلق دل سے ہے جس قدر کسی کا دل ایمان کی پختگی اور اس کے نور سے منور ہوگا۔ اتنی ہی زیادہ اس کے آگے روشنی ہوگی اور دائیں طرف روشنی کا تعلق اس کے اعمال صالحہ سے ہوگا۔ بڑی کامیابی: یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کے لیے وہاں موجود ہوں گے۔