وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور لوگو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ پر ایمان (٨) نہیں لاتے ہو، حالانکہ رسول اللہ تو تمہیں بلا رہے ہیں، تاکہ تم اپنے رب پر ایمان لے آؤ، اور اس نے تو تم سے اس بات کا عہد بھی لیا ہوا ہے، اگر تم ایمان رکھتے ہو
اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ: پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کی طرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں معجزے دکھا رہے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سب سے زیادہ ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں؟ کہا فرشتے، فرمایا وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے؟ کہا پھر انبیاء فرمایا ان پر تو وحی اور کلام خدا اترتا ہے، وہ کیسے ایمان نہ لاتے؟ کہا پھر ہم۔ فرمایا: واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے کہ تم میں میں زندہ موجود ہوں۔ سنو بہترین اور عجیب تر ایمان والے وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے۔ (مسلم: ۲۹۵۹) یہاں ایمان لانے سے مراد اللہ اور اس کے رسول کے ان وعدوں کو یقینی اور سچا سمجھنا ہے جو اسلام کے غلبہ سے متعلق انھوں نے مسلمانوں سے کر رکھے تھے یہ وعدے بھی کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بہت زیادہ تمہیں غنائم وغیرہ کی صورت میں لوٹا دے گا اور یہ وعدہ بھی کہ اللہ آخرت میں تمہیں ایسے صدقات کا بہت زیادہ اجر دے گا۔ اقرار سے مراد: (عہد) (أَ لَسْتُ بِرَبِّکُمْ) بھی ہو سکتا ہے جس کی رو سے ہر شخص نے اقرار کیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر زندگی گزارے گا۔