هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہی اول ہے (٣) اور آخر ہے، اور ظاہر ہے، اور باطن ہے، اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے
وہی اول، یعنی جب کائنات کی کوئی چیز موجود نہ تھی اس وقت بھی اللہ موجود تھا، اور جب کائنات کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی سب فنا ہو جائیں گے اس وقت بھی ہو گا۔ وہ ظاہر اس لحاظ سے ہے کہ ہر چیز کا وجود وظہور اس کے وجود سے ہے۔ اس پر کوئی غالب نہیں۔ وہی باطن ہے یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے، حواس خمسہ سے اس کا ادراک تو درکنار ہم عقل سے اس کی ذات یا صفات کے متعلق کوئی صحیح تصور بھی قائم نہیں کر سکتے۔ اس مادی دنیا میں ہمارے سامنے اس قدر غیب کے پردے حائل ہیں کہ ہم ان آنکھوں سے اسے کبھی نہیں دیکھ سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے یہ دعا پڑھا کرتے تھے: (( أَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ، فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَیٰ، مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْآنِ، أَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ، أَللّٰہُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ، وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ.)) ’’اے اللہ اے ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کے رب! اے ہمارے اور ہر چیز کے رب! اے تورات اور انجیل کو اتارنے والے، دانے اور گٹھلیوں کو اگانے والے! تیرے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، میں تیری پناہ میں آتا ہوں، ہر اس چیز کی برائی سے کہ اس کی چوٹی تیرے ہاتھ میں ہے تو اول ہے کہ تجھ سے پہلے کچھ نہ تھا تو ہی آخر ہے کہ تیرے بعد کچھ نہیں تو ظاہر ہے کہ تجھ سے اونچی کوئی چیز نہیں، تو باطن ہے کہ تجھ سے چھپی کوئی چیز نہیں ہمارے قرض ادا کر دے اور ہمیں فقیری سے غنا دے۔‘‘ (احمد: ۲/ ۴۰۴)