وَآتُوا الْيَتَامَىٰ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ ۖ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَىٰ أَمْوَالِكُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ حُوبًا كَبِيرًا
اور یتیموں (2) کا مال ان کے حوالے کردو، اور حلال و پاک کے بدلے میں حرام و ناپاک کو نہ اختیار کرو، اور اپنے مال کے ساتھ ان کا مال ملا کر نہ کھاؤ، بے شک یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
یتیموں کے مال ان کو واپس کردو: معاشرتی قباحتوں میں سے سب سے پہلے اللہ نے یتیموں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے۔ یتیم کی پرورش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’میں اور یتیم کا سرپرست جنت میں اس طرح ہونگے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی اور درمیانی انگلی ذرا کھول کر اشارہ کیا۔‘‘ (بخاری: ۶۰۰۵) یتیم جب بالغ اور باشعور ہوجائیں تو ان کے مال اُن کو واپس کردو۔ ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لیے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں دے دو۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں آپس میں ملالی جائیں جس سے یتیم کو کسر لگانے اور اپنا فائدہ ملحوظ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملاکر کھانا بھی ممنوع ہے اور اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔