يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! صبر سے کام لو، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرو، اور جہاد کے لیے مستعد رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ فلاح پاؤ
ٰ اے ایمان والو صبر کرو۔ یعنی اطاعت اختیار کرنے اور شہوات و لذت کو ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو۔ جنگ کی شدتوں میں دشمن کے آگے ڈٹے رہنا، یہ صبر کرنے کی سخت ترین صورت ہے۔ اس لیے اسے علیحدہ سے بیان فرمایا۔ میدان جنگ یا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہوکر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لیے تیار رہنا یہ بھی بڑے عزم و حوصلہ کاکام ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں ایک دن مورچے پر رہنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی کو ایک کوڑارکھنے کے برابر جنت میں جگہ مل جائے تو وہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس سے بہتر ہے ۔ اور شام کو جو آدمی اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں چلے یا صبح کو تو وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (بخاری: ۲۸۹۲) نیز آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’ایک دن رات پہرہ دینا‘‘ ایک ماہ کے روزے اور قیام سے بہتر ہے۔ اگر وہ پہرہ دیتے ہوئے شہید ہوگیا تو اس کے مطابق اس کا رزق بھی جاری رہے گا اور وہ فتنوں سے امن میں رہے گا۔ (مسلم: ۱۹۱۳) سورۃ آل عمران میں غزوہ احد کا تفصیلی ذکر ہے ۔ اور یہ آخری آیات سورت کا لب لباب ہے۔ جس میں مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں بروقت تیار رہنے کی جامع ہدایات دی گئی ہیں۔