سورة النجم - آیت 36

أَمْ لَمْ يُنَبَّأْ بِمَا فِي صُحُفِ مُوسَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا اسے اس بات کی خبر نہیں دی گئی ہے جو موسیٰ کے صحیفوں میں ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا ابراہیم اور سیدنا موسیٰ کے صحیفوں کی تعلیم، قانون جزا و سزا کی دفعات: یعنی ان صحیفوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی جزا و سزا کا قانون پوری طرح بتا دیا ہے۔ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں اس قانون کی خبر نہیں پہنچی۔ اس قانون کی دفعات یہ تھیں (۱) کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمہ دار نہیں (۲)آخرت میں ہر شخص کو اپنے کیے کی جزا و سزا ضرور ملے گی۔ اس آیت سے ان علما کا استدلال صحیح ہے جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن خوانی کا ثواب میت کو نہیں پہنچتا۔ اس لیے کہ یہ مردہ کا عمل ہے نہ اس کی محنت۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مردوں کے لیے قرآن خوانی کی ترغیب دی نہ کسی نص یا اشارۃ النص سے اس کی طرف راہنمائی فرمائی۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی یہ عمل منقول نہیں۔ اگر یہ عمل عمل خیر ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہم اسے ضرور اختیار کرتے۔ اور عبادات و قربات کے لیے نص کا ہونا ضروری ہے اس میں رائے اور قیاس نہیں چل سکتا۔ البتہ دعا و خیرات و صدقہ کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے۔ اس پر تمام علما کا اتفاق ہے۔ اور وہ جو حدیث ہے کہ مرنے کے بعد تین چیزوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے۔ مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ کا، دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔ (مسلم: ۱۶۳۱) ایصالِ ثواب کا مسئلہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ میری ماں ناگہاں مر گئی اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ بات کر سکتی تو ضرور صدقہ کرتی۔ اب اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اسے ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ اور دوسری روایت میں ہے کہ اس شخص نے یہ پوچھا تھا کہ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو مجھے ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں‘‘ (مسلم: ۱۶۳۸) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے یہ پوچھا تھا کہ ’’ میرا باپ مر گیا اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں‘‘ (مسلم : ۱۶۴۱) اس کے علاوہ اور بھی احادیث موجود ہیں۔ ان دو احادیث میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے میت کا کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کے لواحقین نے سر انجام دئیے ہیں۔ انہی احادیث سے مسئلہ ایصالِ ثواب مستنبط کیا جاتا ہے ان احادیث سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ (۱) یہ چاروں احادیث مال و دولت سے تعلق رکھتی ہیں (۲) جن معاملات کا تعلق فرض یا واجب سے ہو ان کا ادا کرنا میت کے لواحقین پر واجب ہے مثلاً (۱) میت کے قرض کی ادائیگی (۲) حج کی ادائیگی (۳) اگر کوئی منت مانی ہو تو اس کی ادائیگی (۴)اور روزں کے یا دوسرے کفارے وغیرہ اور وہ دوسرے کے کرنے سے ادا ہو جاتے ہیں۔ (۵) میت کی طرف سے نفلی صدقہ کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ اور اس کا ثواب میت کو پہنچ جاتا ہے۔