سورة ق - آیت 19

وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ۖ ذَٰلِكَ مَا كُنتَ مِنْهُ تَحِيدُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور موت کی بے ہوشی (١١) برحق خبر لے کر آگئی، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

موت پر سب حقائق کا انکشاف: یعنی موت کی بیہوشیاں اور سختیاں ان سب حقیقتوں کو ساتھ لے ہی آئیں گی جن کی انبیاء کرام اطلاع دیتے رہے۔ موت کے ساتھ ہی اسے معلوم ہو جائے گا کہ جس محاسبہ اور برے انجام سے وہ ڈرایا کرتے تھے اس کا آغاز ہو گیا ہے۔ موت کا فرشتہ دیکھتے ہی اس پر سب پیش آنے والی حقیقتیں ظاہر ہونے لگیں گی۔ توگریز کرتا رہا: مراد سیدھے راستے سے پہلو تہی کرنا، کنی کترانا، سمت بدل لینا اور دور بھاگنا ہے۔ سیدھا راستہ پیغمبروں نے یہ بتایا تھا کہ تمہیں مر کر دوبارہ جی اُٹھنا ہے۔ اور تمہارا محاسبہ ہونے والا ہے۔ تو اس بارے میں مشکوک ضرور تھا تیرے نزدیک دونوں احتمال موجود تھے۔ لیکن تیرا نفس ہی چاہتا تھا کہ تیرا محاسبہ نہ ہونا چاہیے لہٰذا تو طرح طرح کے اعتراض کر کے اپنے آپ کو مطمئن کر لیتا تھا اور سیدھے راستے سے بہرحال بچنا چاہتا تھا۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب موت کی غشی طاری ہونے لگی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چہرہ مبارک پسینہ سے پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے سبحان اللہ موت کی بڑی سختیاں ہیں۔ (بخاری: ۴۴۴۹)