الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
جن لوگوں نے کاری زخم (116) لگنے کے بعد بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی، ان میں سے جن لوگوں نے اچھے کام کیے اور تقوی کی راہ اختیار کی، ان کے لیے اجر عظیم ہے
مشرکین جب جنگ اُحد سے واپس آئے تو راستے میں انھیں خیال آیا کہ ہم نے ایک نہایت سنہری موقع ضائع کردیا۔ مسلمان شکست خوردگی کی وجہ سے خوف زدہ تھے بے حوصلہ تھے ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر حملہ کردینا چاہیے ۔ تاکہ اسلام کا یہ پودا اپنی سرزمین (مدینہ) سے ہی نیست و نابود ہوجائے۔ ادھر مدینہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اندیشہ ہوا کہ شاید وہ پھر پلٹ آئیں لہٰذا آپ نے صحابہ کو لڑنے پر آمادہ کیا آپ کا فرمان سن کر باوجود اس کے کہ وہ حضرات اپنے مقتولین و مجروحین کی وجہ سے دل گرفتہ و مغموم تھے۔ ستر آدمی کفار کا تعاقب کے لیے تیار ہوگئے۔ جب یہ قافلہ مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا اور انکاارادہ بدل گیا اور وہ مدینہ پر حملہ کرنے کی بجائے واپس مکہ لوٹ آئے اس آیت میں مسلمانوں کے اسی جذبہ اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی گئی ہے۔