يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو (١) اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام: یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نہ بڑھو بلکہ ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو۔ نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے۔ جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے اور دینے کے بعد اگر اس کا نص شرعی کے خلاف ہونا واضح ہو جائے تو اس پر اصرار بھی آیت میں دئیے گئے حکم کے منافی ہے۔ مومن کی شان تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہے۔ نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی کسی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف بھیجا تو دریافت فرمایا کہ کس چیز کے ساتھ حکم کرو گے؟ جواب دیا کتاب اللہ کے ساتھ۔ فرمایا اگر نہ پاؤ؟ جواب دیا اجتہاد کروں گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا خدا کا شکر ہے۔ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو ایسی توفیق دی جس سے خدا کا رسول خوش ہو۔ (ابوداؤد: ۳۵۹۲، ترمذی: ۱۳۲۷) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ جب تک کسی امر کی بابت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہ فرمائیں تم خاموش رہو۔ (بخاری: ۴۸۴۸)