إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کے تعصب (١٧) کو جگایا، تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنا سکون اتار، اور انہیں تقویٰ والی بات پر قائم رکھا، اور یہ لوگ اس کے سب سے زیادہ حقدار اور سزا وار تھے، اور اللہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے
قریش کی جاہلانہ حمیت: اس سے مراد (عار اور غرور ہے) قریش اپنے دلوں میں غیرت و حمیت جما چکے تھے انہوں نےکہا کہ مسلمانوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے۔ لات و عزیٰ کی قسم ہم انہیں کبھی یہاں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ یعنی انھوں نے اپنی عزت و وقار کا مسئلہ بنا لیا۔ اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے۔ کیوں کہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لیے آنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں تھا۔ قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آ جاتی اور وہ بھی اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر مکے جانے پر اصرار کرتے، جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی، اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک رہتی۔ (جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے) اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر و تحمل کی توفیق دے دی۔ اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہے، جوش اور جذبے میں آکر مکے جانے کی کوشش نہیں کی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس حمیت سے مراد قریش مکہ کا رویہ ہے جو صلح کے لیے اور معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا، یہ رویہ اور معاہدہ دونوں کے لیے بظاہر ناقابل برداشت تھا لیکن انجام کے اعتبار سے چونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کونہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرمایا۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کر لی کہ اس سال مسلمان عمرہ کے لیے مکہ نہیں جائیں گے۔ اور یہیں سے واپس ہو جائیں گے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھی۔ انھوں نے اس پر اعتراض کر دیا کہ رحمٰن، رحیم کو ہم نہیں جانتے، ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یعنی بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ (اے اللہ تیرے نام سے) لکھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح لکھوایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا، یہ وہ دستاویز ہے، ’’ جس پر محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم نے) اہل مکہ سے مصالحت کی ہے۔‘‘ قریش کے نمائندوں نے کہا: ’’ اختلاف کی بنیاد تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ہی ہے اگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان لیا تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے؟ پھر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کی جگہ ’’ محمد بن عبداللہ‘‘ لکھیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا۔ (یہ مسلمانوں کے لیے نہایت ہی اشتعال انگیز صورت حال تھی، اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتے) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کر دیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ الفاظ کہاں ہیں؟ بتانے کے بعد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اسے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ تحریر کرنے کو فرمایا۔ اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھی گئیں۔ (۱) اہل مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کر دیا جائے گا۔ (۲) جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا وہ اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ (۳) مسلمان آئندہ سال مکے آئیں گے اور یہاں تین دن قیام کر سکیں گے، تا ہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ (بخاری: ۴۸۴۴) اور اس کےساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں (۱) دس سال لڑائی موقوف رہے گی۔ (۲) قبائل میں سے جو چاہے مسلمان کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہو جائے۔ تقویٰ پر جمائے رکھا: اس سے مراد کلمہ توحید و رسالت ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ ہے۔ جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے انکار کیا۔(ابن کثیر)