هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر (١٦) کیا، اور تمہیں مسجد حرام سے روکا، اور قربانی کے جانور کو اس کی جگہ پر پہنچنے سے روکا، اور اگر (مکہ میں) چند مومن مرد اور چند مومن عورتیں نہ ہوتیں جن کی تمہیں خبر نہ ہونے کی وجہ سے تم انہیں روند ڈالتے، پھر لاعلمی میں (ایساکرگذرنے سے) تمہیں ان کے بارے میں رنج ہوتا ( تو تمہیں لڑائی سے نہ روکا جاتا، اور جنگ اس لئے بھی نہیں ہوئی) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت (دین اسلام) میں داخل کردے، اگر وہ مسلمان الگ ہوتے تو ہم مکہ کے کافروں کو درد ناک عذاب دیتے
’’ ھَدْیُ‘‘ اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر (عمرہ کرنے والا) اپنے ساتھ مکے لے جاتا ہے یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا ہے۔ محل (حلال ہونے کی جگہ) سے مراد قربان گاہ ہے۔ جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ کل ستر اونٹ تھے جو صحابہ کرام اپنے ہمراہ لائے تھے۔ یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انھیں قربان کیا جائے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں مسجد حرام سے روکا۔ اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔ حدیبیہ میں جنگ نہ لڑنے کا ایک بہت اہم پہلو: سردست تمہیں لڑائی کی اجازت نہ دینے میں پوشیدہ راز یہ تھا کہ ابھی چند کمزور مسلمان مکے میں ایسے ہیں جو ظالموں کی وجہ سے نہ اپنے ایمان کو ظاہر کر سکتے ہیں اور نہ ہجرت کر کے تم سے آمل سکے ہیں۔ اور نہ تم انھیں جانتے ہو۔ لہٰذا اگر تمہیں اجازت دے دی جاتی اور تم اہل مکہ پر چھاپہ مارتے تو وہ سچے پکے مسلمان بھی تمہارے ہاتھوں شہید ہو جاتے اور تم بے علمی میں مستحق گناہ ہو جاتے اور تم پر دیت لازم آجاتی پس ان کفار کی سزا کو اللہ نے کچھ اور پیچھے ہٹا دیا تاکہ ان کمزور مسلمانوں کو چھٹکارا مل جائے۔ اور بھی جن کی قسمت میں ایمان ہے وہ ایمان لا چکیں۔ اگر یہ مومن ان میں نہ ہوتے، اگر یہ الگ الگ ہوتے تو یقیناً ہم تمہیں ان کفار پر ابھی اسی وقت غلبہ دے دیتے اور انھیں بھوسی کی طرح اڑا دیتے۔ حضرت جنید بن سبیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ صبح کو میں کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ سے لڑ رہا تھا۔ لیکن اسی شام کو اللہ تعالیٰ نے میرا دل پھیر دیا۔ میں مسلمان ہو گیا اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر کفار سے لڑ رہا تھا۔ ہمارے ہی بارے میں یہ آیت کو ’’ لَوْلَا رِجَالٌ‘‘ نازل ہوئی ہے۔ (ابن کثیر)