سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
آپ سے پیچھے رہ جانے والے دیہاتی (٨) کہیں گے کہ ہمارے مال و دولت اور ہمارے بال بچوں نے ہمیں مشغول کردیا، اس لئے آپ ہمارے لئے مغفرت کی دعا کردیجیے، وہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے، آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کے مقابلے میں کون تمہارے لئے کسی چیز کا مالک ہے، اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے، یا تمہیں کوئی فائدہ پہنچانا چاہے، بلکہ اللہ تمہارے کاموں کی پوری خبر رکھتا ہے
پیچھے رہنے والے لوگ: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا ارادہ کیا تو مدینہ اور اس کے آس پاس کی بستیوں میں اس کا باقاعدہ اعلان کرایا گیا تھا۔ مگر آس پاس کے کچھ قبائل مثلاً غفار، مزینہ، جہینہ اور اسلم کے لوگوں نے آپ کے ہمراہ جانے سے گریز کیا۔ مذکورہ قبیلوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لیے ساز گار نہیں ہیں وہاں ابھی کافروں کو غلبہ ہے۔ اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لیے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جا سکتے۔ اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کر لیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے؟ اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے اپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرے کے لیے نہیں گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے۔ کہ لوگ طرح طرح کے بہانے اور عذر پیش کریں گے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اس لیے ہمیں خود ہی رکنا پڑا۔ لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا نفاق اور اندیشہ موت کے سبب تھا۔ اور آپ سے ان کا استغفار کے لیے کہنا بھی ایک فریب ہے۔ اور وہ آپ کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں آپ کے ساتھ نہ جانے کا واقعی افسوس ہے ۔ اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے: یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرے تو کیا تم میں سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہیے تو کوئی روک سکتا ہے یہ دراصل پیچھے رہ جانے والوں کا رد ہے۔ جنوں نے یہ گمان کر لیا تھا کہ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے حالانکہ نفع و ضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تمہارے ایک ایک عمل سے باخبر ہے۔ اس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا۔