بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
تعارف: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ کے طواف کا خواب میں آنا ۶ھ جنگ احزاب کے بعد مسلمانوں پر قریش کی بالادستی کا تصور ختم ہو چکا تھا۔ تاہم ابھی تک بیت اللہ پر قریش کا ہی قبضہ تھا۔ مسلمان جب سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تھے ان میں سے کسی نے حج، عمرہ یا طواف کعبہ نہیں کیا تھا جس کے لیے ان کے دل ترستے رہتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے مسلمانوں کی معیت میں بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں نبی کا خواب چوں کہ وحی ہوتا ہے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا اعلان فرما دیا۔ چھ ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب ۱۴۰۰ صحابہ رضی اللہ عنہم عمرہ کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے۔ لیکن مکے کے قریب حدیبیہ کے مقام پر کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا۔ اور عمرہ نہیں کرنے دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکے بھیجا تاکہ وہ رؤسائے قریش سے گفتگو کر کے انہیں مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کریں۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد ان کی شہادت کی افواہ پھیل گئی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کی بیعت لی جو بیعت رضوان کہلاتی ہے۔ بعد میں یہ افواہ غلط نکلی، تاہم کفار مکہ نے عمرہ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اور مسلمانوں نے آئندہ سال کے وعدے پر واپسی کا ارادہ کر لیا، وہیں اپنے سر بھی منڈا لیے اور قربانیاں کر لیں۔ نیز کفار سے اور بھی چند باتوں کا معاہدہ ہوا جنہیں صحابہ کرام کی اکثریت ناپسند کرتی تھی لیکن نگاہ رسالت نے اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے، کفار کی شرائط پر ہی صلح کو بہتر سمجھا۔ حدیبیہ سے مدینے کی طرف آتے ہوئے راستے میں یہ سورت اتری، جس میں حدیبیہ کی اس صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا گیا۔ چونکہ یہ صلح فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس کے دو سال بعد ہی مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے اسی لیے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے تھے کہ تم فتح مکہ کو فتح شمار کرتے ہو، لیکن ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح شمار کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کی بابت فرمایا، کہ ’’آج رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے۔ جو مجھ دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (بخاری: ۵۰۱۲)