هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم
تم ہی تو ہو کہ تمہیں اللہ کی راہ میں خرچ (٢٠) کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، تو تم میں سے بعض بخل کرنے لگتا ہے، اور جو بخل کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے کام سے بخل کرتا ہے، اور اللہ ہی غنی ہے، اور تم محتاج وفقیر ہو، اور اگر تم دین سے برگشتہ ہوجاؤ گے، تو اللہ تمہارے علاوہ کسی دوسری قوم کو لے آئے گا، پھر وہ لوگ تمہاری طرح نہیں ہوں گے
دوسروں سے مراد اہل فارس ہیں: اللہ اگر تمہیں جہاد میں اور دوسرے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کو کہتا ہے۔ تو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔ دنیا میں وہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور آخرت میں تو ایک، ایک کا ہزار ہزار ملے گا اور اگر تم بخل کرو گے اور جہاد کی ضرورتوں پر خرچ نہ کرو گے تواس کا سخت نقصان اٹھاؤ گے۔ اور کافروں کے سامنے تمہیں ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔ اللہ کے نافرمان الگ بنو گے۔ اللہ کو تمہارے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں وہ تو بے نیاز ہے اور محتاج تم ہی ہو، اگر تم جان و مال خرچ کرنے میں بخل کرو گے تو اللہ تمھاری جگہ دوسرے لوگ لے آئے گا جو جان و مال خرچ کرنے میں بخیل نہ ہوں گے اللہ کو تو بہر حال اپنے دین کو سر بلند کرنا ہے اگر وہ تمہارے ہاتھوں ہو جائے تو اسے اپنے لیے غنیمت سمجھو۔ اور دوسرے لوگوں سے مراد اہل فارس ہیں۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں آپ نے جواب نہ دیا۔ انھوں نے تین بار یہی سوال کیا۔ اس وقت ہم لوگوں میں سلمان فارسی بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کے سر پر رکھ کر فرمایا: اگر ایمان ثریا (ستارے) پر ہوتا تب بھی ان لوگوں میں سے کئی وہاں تک پہنچ جاتے۔(بخاری: ۴۸۹۷) اہل فارس کی شاندار خدمات: الحمد للہ صحابہ کرام نے جہاد کے سلسلہ میں ایسی بے نظیر قربانیاں پیش کیں کہ ان کی جگہ دوسری قوم کو لانے کی نوبت نہ آئی۔ تاہم اہل فارس نے اسلام میں داخل ہو کر علم و ایمان کا وہ شاندار مظاہرہ کیا اور ایسی لاجواب دینی خدمات سر انجام دیں۔ جنھیں دیکھ کر ہر شخص یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے عین مطابق یہی لوگ تھے۔ جو بوقت ضرورت عرب کی جگہ پر کر سکتے تھے۔ نامور محدثین اور ائمہ فقہا کی اکثریت اسی علاقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ الحمد للہ سورہ محمد کی تفسیر مکمل ہوئی۔