بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
تعارف: سورہ ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئیں۔ مکہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے دشمن صرف قریش تھے لیکن مدینہ جانے کے بعد جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست بھی قائم ہو گئی تو مسلمانوں کے دشمنوں میں اضافہ ہو گیا۔ قریش مکہ نے بھی اپنی دشمنی ترک نہیں کی۔ یہود سے اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جاتے ہی ایک دفاعی معاہدہ کر لیا تھا۔ لیکن یہود ایک عہد شکن قوم ہے اس لیے ان کی ساز باز قریش مکہ کے ساتھ رہتی تھی۔ اور قریش مکہ بھی اس دفاعی سمجھوتہ کے باوجود انھیں اپنا ہی حلیف سمجھتے تھے ادھر منافقین بھی مسلمانوں کے لیے مارآستین بنے ہوئے تھے اور درپردہ ان کی ساری ہمدردیاں یہود کے ساتھ تھیں اور یہ اس لحاظ سے بھی خطرناک تھے کہ مسلمانوں کے راز اور تدبیروں سے یہود اور دوسرے دشمنوں کو باخبر رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں ارد گرد کے مشرک قبائل عرب بھی اس چھوٹی سی نئی مسلم ریاست کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کو یہ فائدہ تو ہو گیا کہ اب وہ آزادی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے تھے، ارکان اسلام بجا لاتے اور علی الاعلان تبلیغ کر سکتے تھے۔ مگر یہاں آ کر اندر اور باہر چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے معاشی پریشانیوں کا مسئلہ الگ تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بس دو ہی راستے تھے ایک یہ کہ مشکلات سے گھبرا کر کفر کے آگے گھٹنے ٹیک دیں اور دوسرا یہ کہ سر دھڑ کی بازی لگا کر کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں، اور اللہ پر توکل کریں۔ اسی پس منظر میں یہ سورت نازل ہوئی۔ جس میں مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی۔ اور اللہ پر توکل رکھتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی۔