وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُم بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنتُمْ تَفْسُقُونَ
اور جس دن اہل کفر آگ کے سامنے (١٤) لائے جائیں گے، ان سے کہا جائے گا کہ تم نے دنیا کی زندگی میں ہی اپنی نعمتیں ختم کرلی، اور ان سے لذت اندوز ہوچکے، پس آج تمہیں زمین میں تمہارے ناحق تکبر اور تمہاری نافرمانیوں کی وجہ سے ذلت کا عذاب دیا جائے گا
یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دئیے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے ہوں گے یا اس کے قریب ہوں گے تو انھیں کہا جائے گا کہ تم اچھے کاموں کا بدلہ دنیا میں لے چکے اور ان سے فائدہ اٹھا چکے لہٰذا آج تمہارے لیے کچھ نہیں۔ آج انہیں ذلت کا عذاب ہے ان کے تکبر اور ان کے فسق کی وجہ سے۔ دنیا میں یہ نارو نعمت سے اپنی جانوں کو پالنے والے، نخوت و بڑائی سے اتباع حق کو چھوڑنے والے اور برائیوں اور نافرمانیوں میں ہمہ تن گوش رہنے والے تھے۔ تو آج اہانت آمیز عذاب اور رسوائی والے عذاب ملیں گے۔ مومنوں کا انداز فکر: سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹے ابراہیم کہتے ہیں کہ ایک دن (ان کے والد) عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ شام کے وقت روزہ افطار کرنے کے لیے جب ان کے سامنے کھانا رکھا گیا تو کھانے کی نعمتیں دیکھ کر کہنے لگے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ (احد کے دن) شہید ہوئے وہ مجھ سے اچھے تھے ایک ایسی چادر میں ان کو کفن دیا گیا کہ اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے رہ جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا رہ جاتا۔ اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی اسی دن شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر اس کے بعد ہم لوگوں کو آسودگی اور فراوانی دی گئی اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہماری نیکیوں کا ثواب جلد ہی ہمیں دنیا میں نہ مل گیا ہو۔ پھر اس کے بعد رونے لگے اور اتنا روئے کہ کھانا بھی نہ کھایا۔ (بخاری: ۴۰۴۵)