قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
آپ کہئے کہ ذرا غور تو کرو، اگر یہ قرآن واقعی اللہ کی جانب (٨) سے نازل کردہ ہے، اور تم اس کا انکار کر رہے ہو، اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسے قرآن کی گواہی دے چکا ہے، اور ایمان لا چکا ہے، اور تم نے از راہ تکبر اس کا انکار کردیا ہے (تو تمہارا انجام کیا ہوگا) بے شک اللہ ظالموں کو راہ نہیں دکھاتا ہے
اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان مشرکین سے کہو کہ اگر یہ قرآن سچ مچ خدائے تعالیٰ کی ہی طرف سے ہے۔ اور پھر بھی تم اس کا انکار کر رہے ہو تو بتلاؤ تمہارا کیا حال ہو گا وہ اللہ جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے تمہیں کیسی کچھ سزائیں کرے گا؟ تم اس کا انکار کرتے ہو، اسے جھٹلاتے ہو۔ حالانکہ اس کی صحت اور سچائی کی شہادت وہ کتابیں بھی دے رہی ہیں جو اس سے پہلے انبیاء پر نازل ہوتی رہیں۔ اور بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اس کی سچائی کی گواہی دی۔ اس نے حقیقت کو پہچان کر اسے مانا اور اس پر ایمان لایا۔ اس شاہد نے اپنی کتاب اور اپنے نبی پر یقین کر لیا۔ لیکن تم نے اپنے نبی اور اپنی کتاب کے ساتھ کفر کیا۔ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا۔ شاہد اسرائیلی کون تھا؟ بعض کہتے ہیں کی یہ بطور جنس ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے کا رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی ہے کیوں کہ یہ سورت مکی ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں صحیحین کی روایت میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے (بخاری: ۳۸۱۲، مسلم: ۲۴۸۳) اسی لیے امام شوکانی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔