سورة الجاثية - آیت 30

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِي رَحْمَتِهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ان کا رب انہیں اپنی رحمت (جنت) میں داخل کرے گا، یہی کھلی کامیابی ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اعمال صالح سے مراد وہ اعمال خیر ہیں جو سنت کے مطابق ادا کیے جائیں نہ کہ ہر عمل جسے انسان اپنے طور پر اچھا سمجھ لے۔ اور اسے نہایت اہتمام اور ذوق و شوق سے کرے جیسے بہت سی بدعات مذہبی حلقوں میں رائج ہیں۔ فرائض و سنن کا ترک تو ان کے ہاں عام ہے لیکن بدعات کا ایسا التزام ہے کہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کا تصور ہی نہیں ہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعات کو بد ترین کام قرار دیا ہے۔ اصل کامیابی اللہ کی رحمت میں داخل ہونا ہے۔ رحمت سے مراد جنت ہے یعنی جنت میں داخل فرمائے گا جیسے ایک صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے جسے میں چاہوں تجھے عطا فرماؤں گا۔ (بخاری: ۴۸۵۰) اللہ جسے اپنی رحمت میں داخل کرے گا تو اس کی واضح کامیابی کے کئی پہلو ہیں۔ (۱) عذاب سے نجات ملے گی (۲)قیامت کی ہولناکیوں سے امن میں رہے گا (۳) حساب کتاب بالکل سرسری اور آسان سا ہو گا (۴) جنت میں داخلہ مل جائے گا۔ اللہ کی رحمت میں داخل ہونا اتنی بڑی کامیابی ہے کہ باقی ہر طرح کی کامیابیاں از خود اس میں شامل ہو جاتی ہیں۔