إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
بے شک تم میں سے جن لوگوں نے پیٹھ (107) دکھلایا، جس دن دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے آگئیں، شیطان نے ان کے بعض برے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے پاؤں اکھاڑ دئیے، اور اللہ نے یقیناً انہیں معاف کردیا، بے شک اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بڑا بردبار ہے۔
غزوہ اُحد جو مسلمانوں اورکفار مکہ کے درمیان ہوئی تھی اس میں عارضی شکست ہو جانے پر بعض مخلص مسلمانوں نے بھی فرار کی راہ اختیار کی خاص طور پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی افواہ پھیلی تھی تو مسلمانوں کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔ دوسرا جب انھوں نے رسول اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے درہ کو چھوڑدیا تھا۔ یہ راہ فرار مومنوں کے عزم سے نہ تھا بلکہ یہ ایک شیطانی چال تھی ورنہ ان کے دل ایمان پر قائم تھے۔ جس طرح بعض اسلاف کا قول ہے: ’’نیکی کا بدلہ یہ بھی ہے کہ نیکی کرنے کے بعد مزید نیکی کی توفیق ملتی ہے۔‘‘ اور برائی کا بدلہ یہ ہے کہ اس کے بعد مزید بُرائی کا راستہ کھلتا اور ہموار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کی لغزشوں،ان کے نتائج اور حکمتوں کے بیان کے بعد پھر اپنی طرف سے ان کی معافی کا اعلان فرمارہا ہے، جس سے ایک تو انکا محبوب بارگاہ الٰہی ہونا واضح ہو گیا، دوسرے اس میں عام مومنین کو تنبیہ ہے کہ ان مومنین و صادقین کو جب اللہ نے معاف فرما دیا ہے۔ تو اب کسی کے لیے جائز نہیں کہ انھیں تنقید کا نشانہ بنائے۔