ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنفُسِهِم مَّا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُل لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
پھر اللہ نے غم کے بعد تمہارے اوپر سکون (106) نازل کیا، جو ایک نیند تھی، جو تم میں سے ایک جماعت پر غالب آرہی تھی، اور ایک دوسری جماعت تھی جس کو صرف اپنی فکر لگی ہوئی تھی، جو اللہ کے بارے میں ناحق دور جاہلیت کی بدگمانیوں میں مبتلا تھی، کہتے تھے کہ کیا ہمیں بھی کسی بات کا اختیار ہے؟، آپ کہہ د یجئے کہ تمام امور اللہ کے اختیار میں ہیں، یہ اپنے دلوں میں ایسی باتیں چھپائے رہتے ہیں جنہیں آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ اگر ہماری کوئی بات مانی جاتی تو ہم یہاں پر قتل نہ کئے جاتے، آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم لوگ اپنے گھروں میں ہوتے، تو جن کی قسمت میں قتل ہونا لکھ دیا گیا تھا، وہ اپنی قتل گاہوں میں پہنچ ہی جاتے، اور تاکہ اللہ تمہارے سینوں کے اندر چھپی باتوں کو آزمائے، اور تمہارے دلوں کے اندر پوشیدہ رازوں کو نکھارے، اور اللہ سینوں کے بھیدوں کو خوب جانتا ہے
اتنے شدید غموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والوں پر اونگھ طاری کردی، یہ اللہ کی طرف سے غیر معمولی امداد تھی اُونگھ سے جسمانی اور روحانی سکون حاصل ہوجاتا ہے بدن کی تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ اور غم یکدم بھول جاتے ہیں۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن عین جنگ کے دوران مجھے اونگھ نے آدبایا، تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی، میں اُسے تھام لیتا پھر گرنے کو ہوتی پھر تھام لیتا۔ (بخاری: ۴۵۶۲، مسلم: ۱۸۱۱) کمزور ایمان والوں اور منافقوں کا حال: جو لوگ غزوہ اُحد میں شریک ہوئے تھے سب ایک جیسے پختہ ایمان والے اور بہادرنہ تھے بلکہ کچھ کمزور دل بھی تھے اور کچھ منافقین بھی تھے۔ جنھیں نہ تو اسلام کی کوئی فکر تھی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلکہ بس اپنی جانوں کی فکر تھی، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر ابوسفیان نے دوبارہ حملہ کردیا تو پھر ہمارا کیا حشر ہوگا، کبھی وہ یہ سوچتے کہ اللہ اور اس کے رسول نے فتح و نصرت کے جو وعدے کئے تھے وہ کہاں گئے۔ ترمذی کی روایت ہے ’’یہ دوسرا گروہ منافقین کا تھا جنھیں اپنی باتوں کے علاوہ اور کسی بات کی فکر نہیں تھی، وہ قوم میں سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مرعوب اور سب سے زیادہ حق کی حمایت سے گریز کرنے والے تھے۔ (ترمذی: ۳۰۰) ’’ہمارا بھی عمل دخل ہے‘‘ سے کیا مراد ہے؟ ان لوگوں نے بھی جنگ کو مدینہ کے اندر رہ کر ہی لڑنے کا مشورہ دیا تھا ان کی یہ رائے کسی شعور کی بنا پر نہیں بلکہ بزدلی کی بنا پر تھی اور کہتے تھے کہ اگر ہماری بات مانی جاتی تو شکست نہ ہوتی نہ ہمارے بھائی یہاں مارے جاتے۔ فیصلہ کا اختیار اللہ کا ہے: کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر یہ ہے کہ جس مقام پر کسی کی موت واقع ہونا مقدر ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی بہانے وہاں پہنچ کے رہتا ہے۔ وہ مقام کونسا ہوگا؟ اللہ کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں جیسا کہ قرآن میں ہے (وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ) (لقمان: ۳۴) کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا۔ یعنی اگر جنگ نہ ہوتی تو بھی جن جن لوگوں کا یہاں مرنا مقدر ہوچکا تھا وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے یہاں پہنچ کر رہتے ۔ شکست سے کیا فائدہ ہوا: (۱)مسلمانوں کا پتہ چل گیا کہ وہ ایمان میں کتنے مضبوط ہیں۔ (۲) اور، وہ کتنے بہادر اور عزم کے پکے ہیں ۔ (۳)کمزور ایمان والوں اور منافقین کا بھی سب کو پتہ چل گیا۔ (۴) مسلمان اپنی کمزوریوں کو دور کرسکیں۔ (۵) اللہ تعالیٰ آئندہ کے لیے ان کے دلوں کو وساوس اورکمزوریوں سے پاک و صاف بنادے۔ (۶) منافقین کا نفاق کھل کر سامنے آجائے۔(۷) ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جو کچھ تمہارے سینوں کے اندر ہے یعنی ایمان یا نفاق اسے آزمائے۔