وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
اور اللہ نے تمہارے ساتھ اپنا وعدہ (104) سچ کر دکھایا، جب تم کافروں کو اللہ کے حکم سے (گاجر مولی کی طرح) کاٹ رہے تھے، یہاں تک کہ جب تم نے کم ہمتی دکھلائی اور اپنے معاملہ میں خود آپس میں جھگڑنے لگے اور جب اللہ نے تمہیں تمہاری پسندیدہ چیز دکھلا دی تو اللہ کی نافرمانی کر بیٹھے، تم میں سے کوئی دنیا چاہتا تھا، اور تم میں سے کوئی آخرت چاہتا تھا، پھر اللہ نے تمہیں ان کافروں سے پھیر دیا، تاکہ تمہیں آزمائے، اور اللہ نے تمہیں معاف کردیا، اور اللہ کا مومنوں پر بڑا فضل و کرم تھا
جب تم اللہ کے حکم سے انھیں کاٹ رہے تھے اس وقت اللہ کا وعدہ پور ہورہا تھا۔ لیکن جب تم بدل گئے تو وعدہ ختم ہوگیا۔ تم نے کمزوری دکھائی، بزدلی سے کام لیا اور نافرمانی کی کیونکہ تمہیں مال غنیمت نظر آگیا تھا۔ شکست کی وجہ: براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں اُحد کے دن رسول اللہ نے پچاس پیدل آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور تاکید کی کہ تم اپنی جگہ سے نہ سرکنا خواہ تم یہ دیکھو کہ پرندے ہم کو اُچک لے جائیں، اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے کر اسے کچل ڈالا ہے تب تک تم یہاں سے نہ ہلنا، جب تک میں کہلانہ بھیجوں، ابتدا میں مسلمانوں نے کافروں کو مار بھگایا۔ میں نے خود دیکھا مشرک عورتیں اپنے کپڑے اٹھائے اور پنڈلیاں کھولے بھاگی جارہی ہیں یہ صورت حال دیکھ کر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا اب مال غنیمت اڑاؤ تمہارے ساتھی تو غالب آچکے عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیا وہ بات بھول گئے ہو جو رسول اللہ نے کہی تھی۔ وہ کہنے لگے واللہ ہم تو لوگوں کے پاس جاکر غنیمت کا مال اٹھائیں گے۔ جب وہ درہ چھوڑ کر لوگوں کے پاس آگئے تو پیچھے سے خالد بن ولید نے حملہ کردیا اور فتح شکست میں بدل گئی اس وقت آپ کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا کوئی نہ رہا۔ کافروں نے ہمارے ستر آدمی شہید کیے۔ جبکہ بدر کے دن مسلمانوں دشمنوں کے ستر آدمی قتل کیے اور ستر قید کیے تھے۔ (بخاری: ۴۰۴۳، ابو داؤد: ۲۶۶۲) رسول اللہ کے حکم کو ٹھکرایا: تیراندازوں نے جگہ چھوڑدی۔ دنیا کی محبت اور چاہت رکھنے والوں کی وجہ سے فتح شکست میں بدل گئی۔ کچھ دنیا چاہتے ہیں کچھ آخرت: انسانی کمزوری سے کوئی غلطی ہوجائے تو اللہ معاف کردیتے ہیں۔ رائے کا اختلاف تھا عمل کاا ختلاف نہیں تھا۔ اللہ نے تمہیں معاف کردیا۔ یہ اللہ کا بڑا فضل ہے۔