إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَ
بے شک ہم نے اسے ایک برکت والی رات (٣) میں نازل کیا ہے، ہم نے بے شک (اس کے ذریعہ انسانوں کو) ڈرانا چاہتا ہے
بابرکت رات سے مراد لیلۃ القدر ہے: جیسا کہ سورہ البقرہ (۱۸۵) میں ارشاد ہے: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ﴾ ’’رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘ سورہ القدر میں ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّا اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ﴾ ’’ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا۔‘‘ یہ رات (یعنی شب قدر) رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔ کہ ایک تو اس میں قرآن نازل ہوا۔ دوسرے اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے۔ تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (یعنی ۸۴ سال ۴ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے۔ لیلۃ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اسی رات آپ پر قرآن نازل ہوا یا یہ مطلب ہےکہ لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اُتارا گیا جو آسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے حسب ضرورت و مصلحت تقریباً (۲۳) سالوں تک مختلف اوقات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اترتا رہا۔ بعض لوگوں نے لیلۃ مبارکہ سے شعبان کی پندرھویں رات مراد لی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ قرآن کی نص صریح سے قرآن کا نزول شب قدر میں ثابت ہے۔ تو اس سے شب برأت مراد لینا مناسب نہیں۔ علاوہ ازیں شب براءت (شعبان کی پندرھویں رات) کی بابت جتنی بھی روایات آتی ہیں وہ سب روایات سنداً ضعیف ہیں اور ایسی احادیث سے نص قرآن کا معارضہ نہیں کیا جا سکتا۔ ڈرانا مقصود ہے: یعنی قران کریم نازل کرنے کا ہمارا مقصد یہ تھا کہ اس سے تمام اہل عالم کو ان کے انجام سے خبردار کیا جائے اور ان کی گمراہی اور برے اعمال کی سزا سے انہیں ڈرایا جائے۔