وَلَمَّا جَاءَ عِيسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُم بِالْحِكْمَةِ وَلِأُبَيِّنَ لَكُم بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
اور جب عیسیٰ معجزات (٢٨) لے کر (بنی اسرائیل کے پاس آئے)، تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے لئے حکمت و دانائی کی باتیں لے کر آیا ہوں، اور تاکہ میں تمہارے لئے ان بعض باتوں کی وضاحت کر دوں جن میں تم اختلاف کرتے ہو، پس تم اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد: حکمت سے مراد: شرعی احکام کی بصیرت یعنی میری بعثت کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تمھیں شرعی احکام کے متعلق تمام حکمت کی باتیں بتاؤں، اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ جن جن باتوں میں تم اختلاف کر رہے ہو اس کی حقیقت تم پر واضح کر دوں۔ واضح رہے کہ یہود یا بنی اسرائیل بہت سے فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ کچھ اختلاف تو ان کے قیامت سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً وہ انبیاء کی اولاد ہیں۔ دوزخ کی آگ انھیں چھو ہی نہیں سکتی مگر صرف چند دن۔ کچھ اختلاف ان کے حلت و حرمت کے تعلق رکھتے تھے یعنی انھوں نے خود ہی بعض چیز اپنے اوپر حرام کر لی تھیں۔ پھر بعد میں اللہ نے سزا کے طور پر واقعی ان چیزوں کو ان پر حرام کر دیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’میں اس لیے آیا ہوں کہ بعض چیزیں جو (تمھاری سرکشی کی وجہ) سے تم پر حرام کر دی گئی تھیں ان کو (اللہ کے حکم سے) تم پر حلال کر دوں۔ لہٰذا اللہ سے ڈر کر ایسے اختلافات چھوڑ دو۔ اور میری اطاعت کرو۔ جو لایا ہوں اسے مانو۔