أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۚ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا ۗ وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ
کیا آپ کے رب کی رحمت (١٤) کو لوگوں میں یہ کفار تقسیم کریں گے، ہم نے ہی دنیاوی زندگی میں ان کی روزی ان کے درمیان تقسیم کی ہے، اور ان میں سے بعض کو بعض پر کئی درجہ رفعت و بلندی دی ہے، تاکہ ان میں سے بعض بعض کو اپنی ماتحتی میں رکھے، اور آپ کے رب کی رحمت و مہربانی اس مال سے زیادہ بہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں
رب کی رحمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر: رحمت نعمت کے معنیٰ میں ہے اور یہاں سب سے بڑی نعمت سے نبوت مراد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا رحمت الٰہی کے یہ مالک ہیں جو یہ اسے تقسیم کرنے بیٹھے ہیں؟ یہ اللہ کی چیز اور اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے دے۔ اسے بخوبی معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رسالت کا حق دار صحیح معنوں میں کون ہے؟ پھر کہاں اس کا علم اور کہاں تمہارا علم۔ وہ ہر شخص کے حالات اور ہر بات سے پوری طرح واقف ہے۔ وہی بہتر سمجھتا ہے کہ انسانوں میں سے نبوت کا تاج کس کے سر پر رکھنا ہے۔ اور اپنی وحی و رسالت سے کس کو نوازنا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ مال و دولت، جاہ و منصب اور عقل و فہم میں ہم نے فرق و تفاوت اس لیے رکھا ہے تاکہ زیادہ مال والا، کم مال والے سے اور اونچے منصب والا چھوٹے منصب والے سے کام لے سکے۔ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت بالغہ سے کائنات کا نظام بحسن و خوبی چل رہا ہے۔ ورنہ اگر سب مال میں، منصب میں عقل و فہم و شعور میں اور دیگر اسباب دنیا میں برابر ہوتے، تو کوئی کسی کے کام کرنے کو تیار نہ ہوتا، اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھے جانے والے کام بھی کوئی نہ کرتا۔ یہ احتیاج انسانی ہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرق و تفاوت کے اندر رکھ دی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر انسان دوسرے انسان بلکہ انسانوں کا محتاج ہے۔ تمام حاجات و ضروریات انسانی، کوئی ایک شخص چاہے وہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہو۔ دیگر انسانوں کی مدد حاصل کیے بغیر خود فراہم کر ہی نہیں سکتا۔