سورة الشورى - آیت 15

فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پس اے میرے نبی ! آپ لوگوں کو اسی (دین توحید) کی طرف بلاتے (١١) رہئے، اور خود بھی اسی پر قائم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے، اور ان (کافروں) کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے، اور آپ کہہ دیجیے کہ میں تو ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ نے نازل کی ہیں، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کے مطابق فیصلہ کروں، اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب ہے، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں، اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے (اس لئے کہ حق واضح ہوچکا ہے) اللہ (قیامت کے دن) ہم سب کو جمع کرے گا، اور سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی آپ پر اب جو وحی کی جا رہی ہے یہ بالکل پاک صاف اور ستھرا دین ہے جو ہر قسم کی آمیزشوں اور آلائشوں سے مبرا ہے۔ لہٰذا آپ اہل کتاب کی سب باتوں سے بے نیاز ہو کر اسی دین پر ڈٹ جائیے۔ اور اس میں کسی قسم کا ردو بدل اور کمی بیشی گوارا نہ کیجیے، نہ ان لوگوں سے کسی قسم کا مذاکرہ یا سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کو دو ٹوک سنا دیجیے کہ میں تو صرف وہی بات تسلیم کروں گا جو اللہ نے مجھ پر نازل کی ہے۔ انصاف کا حکم: یعنی میں تمہارے فرقوں میں سے کسی کا جانب دارانہ بنوں گا بلکہ انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے صرف حق بات کہوں گا اور حق ہی کا ساتھ دوں گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں اس دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں اور اگر تمہارا کوئی جھگڑا میرے پاس آئے تو مجھے یہی حکم ہے کہ میں انصاف کے ساتھ اس کا فیصلہ کروں۔ اپنے اپنے اعمال: یعنی تمہارے اعمال کے نہ ہم ذمہ دار ہیں اور نہ ہمیں ان کا کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر برے کام کرو گے تو اس کی سزا ہم نہیں تم ہی بھگتو گے اور اگر اچھے کام کرو گے تو اس کا اجر بھی تمہیں ہی ملے گا ہمیں نہیں ملے گا۔ یہی صورت حال ہمارے اعمال کی ہے۔ ہمارے برے اعمال کے جواب دہ تم نہیں ہو گے نہ ہی ہمارے اچھے اعمال کے تم مستحق بن سکتے ہو۔ کج بخشی سے اجتناب کا حکم: یعنی جہاں تک معقول دلائل پیش کرنے کا تعلق تھا وہ ہم کر چکے اور اگر تم کج بحثی کرنا چاہو تو اس کے لیے ہم تیار نہیں۔ ہمارا تمہارا اختلاف اور جھگڑا اللہ کے سپرد۔ قیامت کے دن وہ ہمیں اور تمہیں سب کو جمع کر ے گا۔ وہاں اللہ تعالیٰ خود ہی سب جھگڑوں کا انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا۔