وَذَٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنتُم بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ
یہی وہ تمہاری بد گمانی ہے جو تم نے اپنے رب سے کر رکھی تھی، تمہاری ہلاکت کا سبب بن گئی، پس تم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے بن گئے
یعنی تمہارے اس گمان باطل اور اعتقاد فاسد نے کہ اللہ کو ہمارے بہت سے عملوں کا علم نہیں ہوتا، تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنے میں دلیر اور بے خوف ہو گئے تھے۔ اس آیت کی شان نزول میں ایک روایت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حرم کعبہ میں تین آدمی بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔ ان تینوں میں سے دو قریشی تھے اور ایک ان کا برادر نسبتی تھا جو ثقفی تھا یہ تینوں خوب موٹے تازے تھے مگر عقل کے سب ہی پورے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا؟ تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ ہماری باتیں سن سکتا ہے؟ دوسرا بولا؟ ہاں! اونچی آواز سے بات کریں تب تو سن لیتا ہے اور اگر آہستہ آہستہ آواز سے چپکے چپکے کریں تو پھر نہیں سنتا۔‘‘ تیسرا کہنے لگا اگر وہ اونچی آواز کو سن لیتا ہے تو آہستہ آواز والی بات بھی سن سکتا ہے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری: ۴۸۱۶، مسلم: ۲۷۷۵)