بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
تعارف اس سورت کا دوسرا نام فصلت ہے اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے۔ کہ ایک مرتبہ سردارن قریش نے باہم مشورہ کیا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کے پیرو کاروں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے سب سے زیادہ بلیغ و فصیح آدمی ’’عتبہ بن ربیعہ‘‘ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرے، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کر کے پیش کش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد مال و دولت کا حصول ہے۔ تو ہم جمع کیے دیتے ہیں۔ قیادت و سیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں۔ کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کر دیتے ہیں اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بتوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کرا دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرمائی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا۔ اس نے واپس جا کر سردار قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیز پیش کرتا ہے۔ وہ جاود ہے نہ کہانت، نہ شعر و شاعری۔ مطلب اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سردار ان قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا۔ لیکن وہ غور و فکر کیا کرتے الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہو گیا ہے۔