فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ
پس آپ صبر (٤١) کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، پھر یا تو ہم آپ کو اس عذاب کا بعض حصہ دکھلا دیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے، یا ہم آپ کو (اس کے پہلے ہی) اٹھا لیں گے، تو ان سب کو ہمارے ہی پاس لوٹ کر آنا ہے
اللہ کے وعدے قطعاً حق ہیں: یعنی یہ کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہو سکتا ہے کہ دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کر لیں۔ یا حسب مشیئت الٰہی اس میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے یعنی قیامت والے دن ہم انھیں سزا دیں گے۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ایذاؤں پر صبر اور برداشت کیجیے ان سب پر فتح و نصرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مامنے والوں کو ہی ملے گی۔ اور آخرت تو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے۔ کچھ حصہ آپ کی زندگی میں دکھا دیں گے: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان کو متبلائے عذاب کر دیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔ جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے۔ ۸ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔ لوٹنا ہماری طرف ہی ہے: یعنی اگر کافر دنیوی مواخذہ و عذاب سے بچ بھی گئے تو آخر جائیں گے کہاں؟ آخر میرے پاس ہی آئیں گے جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیارہے۔