وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
اور تمہارے رب نے کہہ دیا ہے، تم سب مجھے پکارو (٣٣) میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ کبر کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے، وہ عنقریب ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے
دعا کی ہدایت اور قبولیت کا وعدہ: گزشتہ آیات میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا، تو اب اس آیت میں ایسی راہنمائی دی جا رہی ہے۔ جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے۔ دعا عبادت ہے: دعا یا کسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارنا اور عبادت ہم معنی الفاظ ہیں۔ اس آیت کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے پکارا کریں۔ تمہاری پکار کو قبول کرتا ہوں۔ اور دوسرے جملہ میں فرمایا کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں۔ جو اس آیت پر واضح دلیل ہے کہ دعا اور عبادت ایک ہی چیز ہے۔ احادیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (الدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ) یعنی پکارنا یہ عبادت ہے) اور ایک مرتبہ یوں فرمایا (الدُّعَا مُخُّ الْعِبَادَۃ) یعنی دعا عبادت کا مغز یا اصل عبادت ہے۔ (ترمذی: ۲۹۶۹، ابو داود: ۱۴۷۹) اللہ مانگنے سے خوش اور نہ مانگ سے ناراض ہوتا ہے: واضح رہے کہ انسان اللہ سے دعا کرتا ہے اور کبھی وہ قبول ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی، کبھی بہت دیر بعد جا کر ہوتی ہے تو اس کے کچھ آداب و اسباب ہیں جن کی تفصیل احادیث میں مذکور ہے۔ یہاں صرف یہ بات بتانا مقصود ہے کہ دعا اگر قبول نہ بھی ہو تو بھی اس کا بہت فائدہ ہے۔ کیوں کہ دعا بذات خود عبادت ہے اور جتنی دیر کسی نے دعا مانگنے میں لگائی وہ مدت گویا اس نے عبادت میں ہی گزار دی۔ لہٰذا ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم اللہ سے مانگتے رہیں دوسری بات جو اس آیت سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ اللہ سے مانگنا اور مانگتے رہنا عین تقاضائے بندگی ہے۔ اور جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا تو یہ عبادت سے انکار یا تکبر کی علامت ہے۔ دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ مانگنے سے خوش اور نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے۔